حوزه نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کی معلمہ محترمہ نجمہ صالحی نے کہا: طولِ تاریخ میں خصوصاً اسلامی تاریخ میں مختلف ثقافتی، سیاسی میدانوں میں مردوں کا ذکر زیادہ نمایاں رہا ہے جبکہ خواتین کی تعداد جو اس میدان میں نام درج کروا سکی ہیں، وہ محدود طور پر ذکر ہوئی ہے حالانکہ خواتین کی مختلف میدانوں میں موجودگی کوئی نئی بات نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: خواتین نے مختلف میدانوں میں فعال شرکت کی ہے اور ہمیشہ اپنے انتہائی مثبت نشانات اور اثرات چھوڑے ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کی اس معلمہ نے مزید کہا: اربعین کی اس عظیم الشان اجتماع میں جو کہ آج ایک عالمی تحریک میں تبدیل ہو چکی ہے، خواتین کا کردار بھی بہت مؤثر ہے، تاہم وہ اس عشق کی راہ میں ابھی ناپیدا اور پوشیدہ ہیں۔
انہوں نے کہا: اربعین حسینی (ع) میں خواتین نہ صرف زائرین کے طور پر شریک ہیں بلکہ منتظمین اور موکب داران کے طور پر بھی موجود ہیں، جو مسلمان خاتون کے ظہور کے لئے آمادہ ہونے کی علامت ہے؛ ایک ایسی خاتون جو محترم اور مقدس بھی ہے اور آزاد و خودمختار بھی، اور ساتھ ہی ساتھ معاشرے اور بین الاقوامی سطح پر مؤثر ہے۔
اس محققہ نے مزید کہا: اگر ایک عورت امام عج کی معرفت اور اس کے مقصد و راہ میں مضبوط ہو اور حقیقی معرفت تک پہنچ چکی ہو تو وہ اپنے بچوں، خاندان اور معاشرے میں انتہائی مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ انتظار کی راہ کو طے کرنا اور اس میدان میں استقامت اور پائیداری کا دارومدار پیشوائے موعود عج کی صحیح معرفت پر مبنی ہے، ممکن ہے کہ اربعین حسینی (ع) میں کسی بھی عنوان سے شریک یہ خواتین اس معرفت تک پہنچ چکی ہوں اور ان ماؤں کا خلوص ان کے بچوں میں سرایت کر چکا ہو۔